محکم جمہوریت کےلئے عورتوں کی بااختیاری اور اُن کی قیادت

Pakistan: جامنی عورت تحریک

Published Date: 
Monday, September 15, 2014
Source: 
Shirkat Gah

پاکستان:جامنی عورت تحریک

 
 
امن کی سرگرم کارکنوں  نے 28،29ستمبر کو پاکستان بھر سے جمع ہوکر جامنی عورت تحریک کی بنیاد رکھی۔ جامنی عورت تحریک پاکستان بھر کی خواتین کارکنا ن اور لیڈرز کے مجموعے کا نام ہے۔ خیبر پختونخواہ کے امن گروپ ’خویندہ تولانہ‘پنجاب کے خاتون امن گروپ ’سجل سویرا‘،سندھ کے گروپ’نویں  صبح‘اور بلوچستان کے گروپ ’نوکی صبح‘ کی خواتین ممبران ملک میں  قیام امن کے اپنے مقصد پر مکالمے کے لیے خیبر پختونخواہ کے علاقے وادی سوات میں  جمع ہوئیں ۔ 
 
ان خواتین لیڈرز نے وہاں  اپنے اپنے علاقوں  کی ثقافت پر بات کی، اپنی فلاحی سرگرمیوں  کے حوالے سے تجربات شئیر کیے اور ان رکاوٹوں  اور مظالم پر بات کی جن کا ان عورتوں  کو سامنا رہا۔ خطے میں  قیام امن کے لیے ممکنہ حل پر بات ہوئی اور ایک ایسے نیٹ ورک کی بنیاد رکھی گئی جہاں  سے ان مسائل پر آواز اٹھانے کے لیے ملکر کام کیا جا سکے۔ خواتین نے اپنے اپنے علاقوں  کی نمائندگی کرنے والی مختلف رنگوں  کی چادریں  اٹھائی ہوئی تھیں  جن پر امن کے حق میں  نعرے درج تھے۔ مختلف رنگوں  کی ان علاقائی چادروں  کو سی کر جہاں  یہ علامتی اظہار کیا گیا کہ چاروں  صوبوں  کے درمیان یکجہتی و ہم آہنگی ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی استعارہ تھا کہ اس بینر تلے تشکیل پانے والی جامنی عورت تحریک کے تحت تمام عورتیں  متحد ہیں ۔ اس موقع پر حمیرا بچل نے اپنی جدوجہد سے متعلق جو تقریر کی اس سے شرکا بہت متاثر ہوئے ۔ حمیرا نے اپنی تقریر میں  عورتوں  کی تعلیم کے حوالے سے اپنی جدوجہد کی داستان سنائی اور گھریلو تشدد کے خلاف بل کی منظوری کو سراہا۔ انہوں  نے عہد کیا کہ جو نیٹ ورک انہوں  نے آج تشکیل دیا ہے اس کی معاونت سے عورتیں  اپنے علاقوں  میں  قیام امن کے فروغ کے لیے کام کرتی رہیں  گی۔ 
 
 
:جامنی عورت تحریک کے مطالبات
 
گذشتہ عشرے میں  پاکستان کو متعدد بار قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا۔ بے شمار لوگ اپنے گھروں  سے محروم ہو گئے ، کتنی ہی جانوں  کا زیاں  ہوا اور بے شمار لوگو معذور ہوگئے۔ نجی اور سرکاری املاک برباد ہوئیں  ۔ ان مسائل اور تباہیوں  نے سب سے زیادہ عورتوں  کو متاثر کیا مگر ان کی آواز کو عملََا کہیں  بھی نہیں  سنا گیا۔ آج عورتوں  نے اپنے آنسو پونچھ کر جامنی عورت کے بینر تلے خود کو متحد کیا ہے تاکہ وہ اس انداز میں  اپنی آواز اٹھا سکیں  جو واضح اور بلند وبانگ ہو۔ 
 
خیبر پختونخواہ کے امن گروپ ’خویندہ تولانہ‘پنجاب کے خاتون امن گروپ ’سجل سویرا‘،سندھ کے گروپ’نویں  صبح‘اور بلوچستان کے گروپ ’نوکی صبح‘ کی خواتین ممبران جامنی خواتین تحریک کے قیام کے لیے ملک بھر سے سوات میں  جمع ہوئیں ۔ اس تحریک میں  شامل خواتین کے نزدیک  اولین اور اہم ترین مسئلہ قیام امن ہے کیونکہ امن کے بغیر روزمرہ کی زندگی میں  استحکام نہیں  آسکتا۔ ان  خواتین نے  تشدد، نفرت اور بدلے کی ثقافت کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے سماج میں  امن چاہتے ہیں  تو ہمیں  پہلے یہ امن اپنے گھر میں  قائم کرنا پڑے گا۔ 
 
ہم امتیاز کی ہر شکل اور عورتوں  کے خلاف تشدد کی ان تمام قسموں  کی مذمت کرتی ہیں  جنہیں  ثقافتی تقدس دے دیا گیا ہے چاہے یہ سوار ہو یا غیرت کے نام پرقتل، سیاسی عمل میں  شراکت کا انکار ہویا تعلیم تک رسائی کا نہ ہونا۔ ہم مطالبہ کرتی ہیں  کہ ہماری حکومت عورتوں  کے حقوق کے تحفظ کے لیے نہ صرف موثر قانون سازی کرے بلکہ مناسب حکمت عملیوں  اور طریقہ ہائے کار کے ذریعے ان کے موثر نفاذ کو بھی یقینی بنائے۔ 
 
دوسرا اہم مسئلہ جس کی طرف ہم اپنی حکومت کی توجہ مبذول کرانا چاہتی ہیں  کہ فوری طور پر ان تمام کمیونٹیز کی تعمیر نو کی جائے اور ان کے لیے خوشحالی کو یقینی بنایا جائے جو قدرتی یا انسانی ہاتھوں  کی لائی غارت گریوں  کے باعث برباد ہوئی ہیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کی جائے، لوگوں  کی بحالی کے لیے کام کیا جائے اور لڑکیوں  اور لڑکوں  کے لیے مساوی مواقع کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ مردوں  اور عورتوں  دونوں  کو صحت،تعلیم اور روزگار مہیا کیا جائے۔ 
 
اور آخر میں  ہم یہ کہنا چاہتی ہیں  کہ ہم عورتوں  کی تحریک کی نمائندہ ہیں  ، نہ کہ کسی این جی او کی۔ ہمیں  کوئی قومی یا عالمی ادارہ فنڈ نہیں  کررہا۔ تاہم عورتوں  کی بااختیاری اور سماجی انصاف کے لیے 40سال سے کام کر رہی عورتوں  کی تنظیم شرکت گاہ نے ہمیں  یہ موقع دیا کہ ہم ایک جگہ متحد ہو سکیں ۔ شرکت گاہ نے دستور میں  موجود انسانی حقوق کے حوالے سے ہماری معلومات میں  اضافہ کیا ہے۔ قانون کے تحت ہمیں  حاصل حقوق کے حوالے سے ہماری استعداد میں  اضافہ کیا ہے اور ہمیں  یہ شعور دیا ہے کہ ہم اپنی دنیا کا تنقیدی جائزہ لے سکیں ۔ ہم شرکت گاہ کے مشکور ہیں  کہ انہوں  نے ہمیں  سوچ کے نئے زاویے دیے۔ آج پاکستان بھر سے عورتیں  جمع ہیں  تاکہ اپنے ملک کے بارے میں  غور کر سکیں  اور آنے والے نسلوں  کے بہتر مستقبل کے لیے منصوبوں  پر غور کر سکیں ۔ 
 
ہم مطالبہ کرتی ہیں  کہ حکومت، پالیسی ساز اور رائے عامہ کے تخلیق کار مساوی انسانی حقوق اور تمام شہریوں  کی بلا امتیاز مذہب، صنف اور نسل کے برابر مواقع کو یقینی بنانے کے لیے آگے بڑھیں  اور ایک ایسے معاشرے کے فروغ کے لیے کام کریں  جس میں  امن، تحفظ اور انصاف ہو۔