محکم جمہوریت کےلئے عورتوں کی بااختیاری اور اُن کی قیادت

غیرت اور شرم

  16days بلاگ سیریز میں  ان خواتین کی کہانیوں  کا مطالعہ ایک شاندار تجربہ تھا جو عورتوں  کے حقوق کے حوالے سے سرگرم ہیں ۔ تشدد، ماورائے عدالت سزائیں  اور غیرت کے نام پر استحصال کے تجربات جو یمن ، عراق او رپاکستان جیسے ملکوں  میں  ہو رہے ہیں  انہیں  پڑھ کر برطانیہ میں  حاصل قدرے بہتر سکیورٹی اور امن کی اہمیت کو سراہنے کا دل کیا۔ تاہم ان بلاگز میں  جو خوفزدہ کردینے والی کہانیاں  بیان کی گئی ہیں  ایسی ہی آوازیں  ہم  گاہے گاہے اس ملک کے گلی کوچوں  سے بھی ہیلپ لائن پر ایسی فون کالز کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ ہمیں  کال کرنے والوں  کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے مگر لڑکوں  اور مردوں کی فون کالز کی تعداد بھی اب بڑھ رہی ہے۔ کچھ کالر تو اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں  کہ اپنا نام تک نہیں  بتاتے۔ وہ ہفتوں  اپنے فرضی نام کے ساتھ ہم سے رابطے میں  رہتے ہیں  اور جب ان کا ہم پر اعتماد قائم ہوجاتا ہے تو تب کہیں  جا کر وہ اپنا اصل نام بتاتے ہیں  اور یہ بتاتے ہیں  کہ وہ کہاں  سے بول رہے ہیں ۔ کچھ سرگوشیوں  میں  بات کرتے ہیں  جیسے بیڈ شیٹ کے اندر سے یا پھر غسل خانے سے، اپنے اس موبائل فون سے  بول رہے ہوتے ہیں  جو انہوں  نے گھر والوں  سے چھپا کر رکھا ہوتا ہے۔

ان سب کے حالات مختلف ہوتے ہیں ۔ کچھ کالر بتاتے ہیں  کہ ان کی جہاز کی ٹکٹیں  بک کرا لی گئی ہیں  ، انہیں  باہر لے جایا جائے گا جہاں  ان کی جبری شادی کر دی جائے گی کیونکہ ایسا ہی ان کی دوسری بہنوں  اور کزنز کے ساتھ ہو چکا ہے۔ کچھ کی پہلے ہی شادیاں  ہو چکی ہوتی ہیں  اور اپنے شوہروں  سے مار کھا رہی ہوتی ہیں ۔ کئی ایسی عورتیں  ہیں  جو بتاتی ہیں  کہ اگر انہوں  نے اپنے گھر والوں  کو چھوڑا یا انکار کیا تو انہیں  پکڑ کر گھر لے جایا جائے گا جہاں  انہیں  قتل کر دیا جائے گا۔ ان تمام کالرز میں  چاہے وہ مرد تھے یا عورت، بوڑھے یا جوان، ایک بات مشترک تھی۔ اور وہ یہ کہ انہیں  زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر یہ ضرور بتایا گیا تھا کہ ان کی ضرورتیں ، خوشحالی، خواہشات اور بسا اوقات ان کی زندگی اتنی اہم نہیں  ہیں  جتنی غیرت، عزت اور شرافت ۔ اس ’غیرت‘ کو برقرار رکھنے اور’ شرم ‘سے بچنا، وہ جواز ہے جو اس خوف اور تشدد کے حوالے سے دیا جاتا ہے ، جس کا ان کالرز کو سامنا ہے۔ خاص طور پر عورتوں  کے لیے عزت کا جانا ، ناقابل قبول تصور ہوتا ہے۔

ہیلپ لائن پر ہمیں  ہر مہینے 550کالیں  موصول ہوتی ہیں ۔ ان کالز کی تعداد میں  ان مہینوں  میں  مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب سکول اور کالج میں  چھٹیاں  ہوتی ہیں  جب کئی نوجوانوں  کو دوسرے ملکوں  میں  لے جا کر جبری شادیوں  پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مذہبی تہواروں  کے آس پاس بھی کالز کی تعداد میں  اضافہ ہو جاتا ہے جیسے عید ، رمضان، کرسمس کے تہوار جب وہ عورتیں  جنہیں  رد کیا جاتا ہے احساس تنہائی کا شکار ہوتی ہیں  اور اپنے گھر والوں  کوکھونے کا غم اس موقع پر زیادہ ستاتا ہے۔ ایسے موقعوں  پر کال کرنے والی عورتیں عموماَ َیہ کہتی ہیں  کہ وہ کسی ایسے شخص سے سے بات کرنا چاہتی ہیں   جو احساس گناہ اور اس نقصان کو سمجھتا ہو۔

ہم جو کام کرتے ہیں  اس کا زیادہ حصہ یہ ہے کہ ہم ہیلپ لائن پر اپنے کالرز کو جذباتی سہارا دیں ۔ بعض اوقات ہمیں  فوری خطروں ، سیفٹی پلاننگ اور بحرانی مداخلت کو بھی ڈیل کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں  خوفزدہ متاثرین کی کالز سننا ہوتی ہیں  جو ہفتوں  بلکہ مہینوں  بعد فون تک پہنچ پاتے ہیں  اور سیفٹی مانگتے ہیں ۔ اس کے بعد متعدد کالیں  کی جاتی ہیں  ، جیسے پولیس، سوشل سروسز وغیرہ کے ادارے، اور کالز کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک متاثرہ فریق محفو ظ نہ ہو جائے۔

اس کے بعد ایسی بیویوں  کی کالز ہوتی ہیں  جنہیں  کسی اور ملک سے لایا گیا ہوتا ہے اور جو مکمل طور پر اپنے شوہروں  پر منحصر ہوتی ہیں  اور جنہیں  سالوں  تک استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جنہیں  تنہائی کا شدید شکار رکھا جاتا ہے۔ بسا اوقات کوئی نرسری سکول ورکر ہمارا نمبر انہیں  دیتا ہے اور ہم ان کی رہنمائی کرتے ہیں  کہ ہم کہاں  ہیں ۔ تاہم ہمیں  خدشہ ہے کہ سینکڑوں  ایسے اور بھی لوگ ہیں  جو اس طرح پھنسے ہوئے ہیں۔

یہاں  یہ بتانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم اتنی بڑی تعداد میں  کالز کو ہینڈل نہ کر سکتے اگر ہمارے پاس حیران کن رضاکاروں  کی وہ ٹیم نہ ہوتی جو اپنا وقت، مہارتیں  اور دیگر زبانوں  سے شناسائی کا علم ہمیں  دیتے ہیں  تاکہ ہیلپ لائن کے ذریعے ان کی مدد کی جا سکے۔ ان رضاکاروں  میں  سے کچھ ایسے بھی ہیں  جنہیں  جبری شادیوں  اور غیرت کے ان واقعات کا سامنا رہا ہے جو ان متاثرین کو اپنے تجربات بتاتے ہیں  اور انہیں  یہ امید دیتے ہیں  کہ سرنگ کی دوسری طرف روشنی کی کرن موجود ہے۔ وہ انہیں  بتاتے ہیں  کہ آپ کو کسی ایسے شخص سے شادی کرنے کی ضرورت نہیں ، صرف اس بنیاد پر کہ آپکی مائوں  یا بہنوں  نے ایسا کیا۔ آپ کو اگر سب چھوڑ دیں  تو پھر بھی زندہ رہ سکتی ہیں ۔ اور انہیں  بتاتے ہیں  کہ مذہب بھی آپ کو اجازت دیتا ہے کہ اس شخص سے شادی سے انکار کردیں  جو آپ کے ماں  باپ نے آپ کے لیے منتخب کیا ہو۔

بچ جانے والے متاثرین کے تجربات اور مشاہدات وہ قیمتی اثاثہ ہیں  جو کرما نروان کے اس کام کا نقطہ آغاز ہیں ۔ ہماری بانی جسویندر سنگھیرا 15سال کی عمر میں  جبری شادی سے بال بال بچی تھیں ۔ انہوں  نے اپنی آنکھوں  سے دیکھا کہ ان کی بڑی بہنوں  کو سکول سے نکال کر بھارت لے جایا گیا جہاں  اجنبیوں  سے ان کی جبری شادیاں  کر دی گئیں ۔ کرما نروان نامی یہ تنظیم جزوی طور پر ان کے تجربے کی وجہ سے مگر حقیقتََا ان کی بہت روبینہ کے ساتھ ہونے والے واقعے کی وجہ سے وجود میں  آئی۔ روبینہ کو شادی کے بعد اپنے شوہر سے جسمانی اورذہنی اذیت کا سامنا تھا ۔ اس نے اپنے گھر والوں  اور کمیونٹی کے بڑوں  سے مدد چاہی مگر اسے بتایا گیا کہ اسی کا نام تو شادی ہے۔ اسے بتایا گیا کہ مرد بھرے دودھ کا ایسا برتن ہے جو چولہے پر چڑھا ہے اور یہ عورت کا فرضہ ہے کہ اس دودھ کو ابلنے سے روکے۔ دوسرے لفظوں  میں  اسے یہ کہا گیا کہ یہ تمھاری ذمہ داری ہے کہ تم اپنی شادی کو کامیاب بنائو۔ اگر کچھ غلط ہو رہا ہے تو اس کی ذمہ دار تم ہو۔ اس کے بعد روبینہ نے ڈربی کے  اس گھر میں  جہاں  اس کی شادی ہوئی تھی، خود پر تیل چھڑک کر آگ لگائی اور خود کشی کر لی۔ جسویندر کی زندگی کا یہ فیصلہ کن موڑ تھا جس کا آخر کار نتیجہ کرما نروان کی صورت میں  نکلا۔ اب جبکہ روبینہ کی موت کو دہائیاں  بیت چکی ہیں  تو کیا عورتوں  کی زندگی میں  کوئی سدھار آیا ہے؟ کچھ حوالوں  سے دیکھیں  تو یقینا آیا ہے۔ کیونکہ اب جبری شادیوں  اور غیرت کے نام پر تشدد کے حوالے سے ان اداروں  میں  آگہی پہلے سے کہیں  زیادہ ہے جو ان واقعات کے متاثرین کی مدد کر رہی ہیں ۔ اور اب وہ دور نہیں  رہا کہ اس  طرح کے واقعات کو کلچرل کہہ کر آنکھیں  پھیر لی جائیں ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں  ماہانہ 500سے زیادہ کالز موصول ہو رہی ہیں  جو عکاس ہیں  اس بات کی کہ ابھی اس اذیت کا خاتمہ نہیں  ہوا اور ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔

ہمیں  جو لوگ کال کرتے ہیں  وہ اداس کرنے والے اور تکلیف دہ تجربات بیان کرتے ہیں  مگر ان پر رحم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ صحافی جو ہمارے ہاں  آتے ہیں  وہ اکثر ہمارے ان رضاکاروں  سے جو کالیں  موصول کر رہے ہوتے ہیں  ، یہ سوال پوچھتے ہیں :’’یہ دلخراش داستانیں  سن کر آپ کو الجھن نہیں  ہوتی؟‘‘ انہیں  جواب ملتا ہے کہ نہیں  کیونکہ اکثر اوقات یہ فون کالیں  الجھن اور تنائو کی بجائے عزم و ہمت بڑھانے والی ہوتی ہیں ۔ کسی ایسی کالر کو سننا جو یہ کہے کہ سالوں  بعد کسی سے بات کر کے احساس تحفظ ہوا یا کوئی لڑکی جو اپنے گھر والوں  کے سوا کسی کو یہ بتانے کا سوچ بھی نہ سکتی ہو وہ آپ کو بتائے کہ اس نے ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کر لیا ہے، تو یہ تنائو کا باعث کیسے ہوگا۔ جیسا کہ ہماری ایک رضاکار نے حال ہی میں  کہا:’’جب بھی یہاں  آتی ہوں  تو مجھے احساس رہتا ہے کہ آج کسی اور متاثر کن عورت سے بات ہوگی اور یہ وہ چیز ہے جو مجھے اس کام سے جوڑے ہوئے ہے

 

 جوڈی بی ، کرما نروان میں  ایک کال ہینڈلر ہیں ۔ کرما نروان برطانیہ کا ایک خیراتی ادارہ ہے جو جبری شادیوں  اور غیرت کے نام پر استحصال کا شکار ہونے والے متاثرین کی مدد کرتا ہے۔

 This blog series is an initiative of the Stop Stoning Women Campaign hosted by WLUML - campaigning to bring an end to Stoning.